بادشاہ کا ایک باندی پہ عاشق ہو نا، اس کو خریدنا، پھر باندی کا بیمار ہونا اور اس علاج کرانا۔
The king fell in love with a slave, bought her, then the slave fell ill and had to be treated.
ہمیں ہمارے روح کی بیماریوں کے ازالہ کے لیے ایک ایسے ہی طبیب کی ضرورت ہے جیسا باندھی کا علاج کرتا تھا ۔ اگر ہم اپنی اصلاح کریں گے تو دنیا اور آخرت دونوں فائدوں سے بہر آور ہوسکتے ہیں۔ پچھلے زمانے میں ایک بادشاہ تھا جس کی حکومت دنیا اور دین کے ملک پر تھی۔ مطلب کہ وہ دنیا کی دولت کا مالک تھا اور نیک عمل بھی کرتا تھا۔ اتفاق ایک دن بادشاہ شکار کے لیے اپنے خاص بندے کے ساتھ سوار ہوا۔ شکار کے لئے جھر جھنگ (جنگل میں) پھرتا رہا۔ وہ اچانک عشق کے جال میں پھنس گیا راستے میں بادشاہ نے باندھی دیکھی۔ بادشاہ اس باندھی کا غلام بن گیا پھر پیسوں سے اس باندھی کو خرید لیا، تقدیر سے وہ باندھی بیمار پڑ گئی۔
ایک شخص کے پاس گدھا تھا پر گدھے کا پالان نہیں تھا ۔ اس کے پاس پیالہ تھا مگر پانی ہاتھ نہیں آیا جب پانی ملا تو پیالہ ٹوٹ گیا۔
One man had a donkey but no donkey feed. He had a cup but water was not available. When water was found, the cup broke.
اس دنیا میں پوری کامیابی حاصل نہیں ہوتی بادشاہ نے اس بیماری کی وجہ سے اُس سے لُطف اندوز نہیں ہو سکا۔ دائیں بائیں سے سارے طبیبوں کو اکٹھا کیا۔ طبیبوں نے کہا کہ معشوق کا موت عاشق کا موت ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ میری جان تو معمولی ہے مگر میری جان کی جان یہی ہے میں دٌکھیارا اور زخمی ہوں، میرا علاج یہی ہے ہے، مطلب کہ باندھی کا علاج ہی میرا علاج ہے۔ جس نے میری جان کا علاج کیا وہی میرے مرجان اور موتی لے گا ۔ سارے طبیبوں نے کہا ہم پوری کوشش کریں گے اور آپس میں مشورہ کرکے ہی علاج کریں گے۔ ہمارے درمیان ہر ایک اپنی دنیا کا مسیح ہے۔ ہمارے پاس ہر درد کا مرہم ہے۔ تکبر کی وجہ سے انہوں نے ان شاء اللہ نہ کہا تو خدا نے انسان کی مجبوری ان پر واضح کر دی۔
ویسے خالی زبان سے صرف انشاء اللہ کہہ دینا کوئی خاص معنیٰ نہیں رکھتا کتا دل میں یقین ہونا ضروری ہے کہ ہر کام اللہ کی مشیت سے ہی ہوتا ہے۔ اگر دل میں یہ عقیدہ مضبوط ہے تو زبان سے نہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
کبھی تو نے سارے حیلے چلائے پر بیماری بڑھتی گئی گی لئے باندھی بالکل بال کے جیسی کمزور ہوگئی۔ بادشاہ کی آنکھوں سے خون کے آنسو بہتے رہے۔ جب موت نزدیک ہوتا ہے تو طبیب بیوقوف بن جاتا ہے ہے دوا فائدہ نہیں دیتی ۔سکنجبین صفراء کو کم کرتی ہے پر تقدیر سے اس نے سفراء کو بڑھا دیا۔ بادام تعلیمی گیلا پن پیدا کرتا ہے ہے پر اس نے خوشبو پیدا کی ہریڑ قبض کشا ہے پر اس نے قبض پیدا کیا، بدن کا پانی مٹی کی تیل کی طرح آگ سے جلنے لگا، طبیبوں کے علاج سے بیماری میں اور زیادہ اضافہ ہوتا گیا، آنکھیں گرم ہوتی گئی دل درد سے بھر گیا۔ طبیبوں کو بادشاہ کے آگے رسوا ہونا پڑا۔
طبیبوں کا عاجز ہونا ،بادشاہ کو خبر ملنا اور حقیقی بادشاہ کی طرف رُخ کرنا۔
شہ چوں عجز آں طبیباں رابدید
پا برہنہ جانبِ مسجد دوید
بادشاہ نے جب طبیبوں کی بے بسی دیکھی تو ننگے پاؤں مسجد کی طرف بھاگا۔
When the king saw the helplessness of the doctors, he ran to the mosque barefoot.
مسجد میں گیا۔ محراب کی طرف منہ کیا بادشاہ کے آنسوؤں سے سجدے کی جگہ گیلی ہو گئی۔ جب ہوش میں آیا، مدح اور ثنا میں زبان خوب کھولی ۔ اے مالک اس دنیا کی سلطنت تمہاری ایک معمولی سی بخشش ہے، میں کیا کہوں تو خود پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے، ہمارا اور سارے طبیبوں کا حال تمہارے عام مہربانی کے آگے بکار ہے۔ پہلی غلطی یہ ہوئی کہ طبیبوں کے اوپر بھروسہ کیا یا یا یا تو الغیوب ہے تمہیں اپنا حال بتا رہا ہوں۔ تم نے فرمایا ہے کہ (سورہ مومن آیت نمبر 60) ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ “مجھ سے مانگو میں پورا کروں گا” جب بادشاہ کی دل نے فریاد کی تو مالک کی بخشش کا دریا جوش میں آیا یا پھر روتے روتے بادشاہ کو نیند آ گئی خواب میں دیکھا دیکھا ایک بزرگ گ شاہ رہو اب جس نے کہا ہاں یہ بادشاہ بشارت ہے تمہارے لیے لیے تمہاری حاجتیں پوری ہوگی پوری ہوگی گی گی اگر کل تمہارے پاس کوئی اجنبی شخص آئے آئے وہ ہماری طرف سے بھیجا ہوا ہوگا اس کو سچا اور امانت دار سمجھ چ اس کے علاج میں جادو کا اثر مزاج میں خدا کی قدرت دیکھنا اپنا بادشاہ سو رہا تھا سو رہا تھا داتا دربار دیکھا جب نیند سے اٹھا۔بادشاہ باندھی کے غم میں غلاموں کی طرح مجبور تھا اور اب بادشاہوں کی طرح غم سے آزاد ہو گیا جب وعدے کا ٹائم آیا دن آیا سورج نکلا تارے غائب ہوئے۔ بادشاہ منتظر تھا کہ اس راز سے پردہ ہٹے اور وہ دیکھے جو اس نے خواب میں دیکھا تھا۔ بادشاہ نے ایک شخص کامل پُر ہنر دیکھا وہ اندھیرے میں سورج کی طرح تھا۔ وہ شخص عبادت اور ریاضت کی وجہ سے نحیف، لاغر اور کمزور تھا پر عید کے چاند کی طرح تھا۔ جیسے خیال کبھی موجود ہوتا ہے تو کبھی معدوم۔ دنیا کا وجود بھی ایسے ہی خیال ہے۔
وہ شخص بھی دور سے ایسا ہی تھا ۔ اللہ والوں کے خیالات العلوم باری کی پرچھائی ہوتے ہیں اسی لئے وہ ثابت اور قائم ہیں۔ اللہ والوں کو نور سے پہچانا جا سکتا ہے۔ بادشاہ بھی اہلِ دِل تھا اسی لیے اس کو پہچان لیا۔ در بانیوں کی بجائے خود آگے بڑھا اور مہمان کے سامنے آیا اور اس کا استقبال کیا۔
تب ایسا تھا جیسے سے چینی گلاب کے پتوں سے جاملی ہو۔ ایک جان دو قلب ہوئے دونوں ایسے متحد ہوئے جیسے ایک پیاسا اور دوسرا پانی ایک مست دوسرا شراب، اس نے کہا کہ میرا معشوق تو تُو تھا، پر اس دنیا میں کام سے کام نکلتا ہے۔ اسی لیئے باندھی کا عشق اس غیبی مہمان کی ملاقات کا سبب بنا او میں تمہارا ایسے ہی خدمت گزار ہوں جس طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تھے۔
خواب میں دیکھے ہوئے خدائی طبیب سے بادشاہ کی ملاقات
شہ چوں پیش میہمان خویش رفت
شاہ بود و لیک بس درویش رفت
اچھا جب اپنے مہمان کے سامنے گیا (حالانکہ) بادشاہ تھا مگر مکمل فقیر بن گیا
مہمان سے گلے ملا ۔ ہاتھ اور پیشانی کو چومنے لگا۔ اور مہمان سے سے مقام اور رستے کا حال پوچھنے لگا ۔ بادشاہ کہنے لگا کہ صبر کرنے سے سے مجھے خزانہ مل گیا ہے۔ ہم نے کہا کہ صبر کڑوا ہے مگر اس کا پھل میٹھا ہے، صبر کشادگی کی کنجی ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ جو ہمارے دل میں ہے تو اس کا ترجمان ہے ۔ آپ بےبسوں کے مددگار ہو ۔ جب مجلس ختم ہوئی تو بادشاہ نے مہمان کا ہاتھ پکڑا اور حرم سرا میں لے گیا۔۔
بادشاہ کا غیبی طبیب کو بیمار کے پاس لے کے جانا۔
قصۂ رنجور و رنجوری بخواند
بعد ازاں درپیش رنجورش نشاند
طبیب کو بیمار اور مرض کا حال سنایا اور اس کے بعد بیمار کو سامنے بٹھایا۔۔
The doctor was told about the sick and the disease and then made the sick sit in front of him.
طبیب نے مریض کے چہرے کا رنگ اور اسباب سننے کے بعد کہا کہ حکیموں کے علاج سے مریض کی بربادی ہوئی ہے۔ حکیموں نے غلط بیانی یہ تھی کہ غیر مرض کو مرض بتایا۔ ( مطلب کے جو مرض نہیں تھا اس کا علاج کر رہے تھے). طبیب پر بیماری کا راز کھل گیا مگر بادشاہ کو نہیں بتایا یہ دل کی بیماری ہے، بدن ٹھیک ہے۔ دل کی بیماری عشق کی نشانی ہے۔ طبیب سمجھ گیا کہ باندھی عشق کی بیماری میں مبتلا ہے۔
عشق مجازی حقیقی عشق کا ذریعہ بنتا ہے۔ عشق کی حقیقت بیان سے بالاتر ہے۔ عشق ایک ذوقی چیز ہے ۔ اس کا بیان قلم سے ممکن نہیں ہے۔ خود عشق میں مبتلا ہو تو اس کی کیفیت سمجھ سکتا ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے وجود کی دلیل خود ان کا وجود ہی ہوتا ہے۔عشق اور سورج انہی چیزوں میں سے ہیں ہیں دنیا کے سورج کی پہچان اس کی پرچھائی سے ہوتی ہے۔ کیونکہ دنیاوی ہر چیز کی پہچان اس کے ضد سے ہوتی ہے۔ ذاتِ حق کی پہچان اس کے نور سے ہوتی ہے، جس کی پرچھائی روح انسانی پر پڑتی ہے۔ ذات حق کے لیے دوام اور بقا ہے۔ کائنات کا سورج جیسا کہ ایک ہی ہے، پر اس جیسا دوسرا تصور کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ حقیقی سورج کی ذات کا تصور ہی ممکن نہیں ہے تو اسکی مثل کا تصور کیسے کیا جا سکتا ہے؟
حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کے لباس کی خوشبو آئی تھی تو وہ بے خود ہوگئے تھے۔ رھبر کامل(حضرت شمس تبریزی) نے جو تصوف کے راز بتائے ہیں ان کے ذِکر سے جہان میں خوشی کی لہر سی دوڑ جاتی ہے۔
Hazrat Yaqub (Jacob) smelled the dress of his son Hazrat Yusuf (Joseph) and he was selfless. The mention of the secrets of Sufism revealed by Rahebar Kamil (Hazrat Shams Tabrizi) causes a wave of joy in the world.
میں نے اپنی روح کو کہا کہ تو اپنے محبوب شمس تبریزی سے دور ہو گیا ہے۔ جیسے کہ مریض طبیب سے دور ہے۔ مدہوش جب اپنے ممدوح کی تعریف کرے گا تو وہ نا مناسب ہوگی۔ میں اس وقت فنا کے مقام پر ہوں جہاں اپنی ہستی باقی نہیں رہتی۔ اس مسئلے وحدت الوجود کو چھوڑ دیں، جو کہ اھل اللہ کے عشق کا سرمایہ ہے۔ سالک اپنے ہر مقام کو ہجر ہی سمجھتا ہے، اسی لئے سورج کی کوئی حد نہیں ہے۔۔ وقت کو تیز تلوار کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی تیز تلوار کی طرح گزر جاتا ہے۔
صوفی وہ شخص ہے جو کہ اپنے آپ کو غیر اللہ سے محفوظ رکھے اور دل میں میں کوئی نفسانی خواہش آنے نہ دے۔ ابن الوقت وہ صوفی ہے جو جو اپنے احوال سے مغلوب ہو جائے اور اپنے راز کو ظاہر کرنے لگے۔ اضطراری طور پر اس سے کرامتوں کا ظہور ہونے لگتا ہے۔ ایسے صوفی کو رند اور قلندر بھی کہا جاتا ہے۔ ابن وقت اس صوفی کو بھی کہا جاتا ہے جو کلبی واردات پر عمل کرے اور ابوالوقت وہ صوفی ہے جو اپنے احوال پر کنٹرول رکھے، رازوں کو ضبط کرے اور کوئی کرامت ظاہر نہ ہونے دے۔ آج کی بات کو کال پے چھوڑ نا مناسب نہیں، سارے نبیوں نے لا اِلٰہ اِلاَِّ اللّٰہ کی تعلیم دی ہے، جس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کمال کی صفتوں سے صرف ایک ہی وجودِ باری تعالیٰ متصف ہے۔ بہتر یہی ہے کہ معشوق کا حال دو سروں کے قصوں میں بیان ہو جائے۔ محبوب کا پیراہن بھی حقیقی وسال سے مانع ہے ۔ میں نے روح کو کہا کہ اگر اس راز کو بلکل کھول کے سنایا گیا تو نفس درہم برہم ہو جائے گا اور برداشت نہیں کر پائے گا۔ حد سے زیادہ وصال وبال بن جاتا ہے۔ جب کہ دنیاوی سورج کی تپش برداشت نہیں کی جاسکتی تو معنوی سورج کی تاب کیسی ہوگی؟
یہ بات ختم ہونے والی نہیں ہے پھر اسی قصے کو شروع سے بیان کر۔
مرض معلوم کرنے کے لیے طبیب کا باندھی کے ساتھ اکیلے ہی میں ملاقات کرنا۔
چوں حکیم از ایں سُخن آگاہ شد
وز دروں ہم داستانِ شاہ شد
طبیب جب اس بات سے باخبر ہو گیا پھر اندر سے بادشاہ کا راز دار بن گیا
طبیب کو جب باندھی کی بیماری کا رازمعلوم ہوگیا تب بادشاہ کو کہا کہ گھر خالی کرو تاکہ میں اکیلے میں باندھی سے کچھ سوال کروں۔ کیونکہ عشق کا راز اکیلے میں ہی معلوم ہو سکتا ہے۔ بادشاہ نے گھر خالی کرایا اور خود باہر گیا کہ طبیب باندھی پر عشق کا منتر پڑھے۔ طبیب نے باندھی سے پوچھا کہ تمہارا شہر کون سا ہے؟ کیونکہ مختلف ملکوں میں رہنے والوں کے مزاج جدا ہوتے ہیں اسی لیے علاج بھی جدا ہوتا ہے۔ طبیب نے نبض پر ہاتھ رکھا اور اس سے پوچھا کہ اس شہر میں تمہارے رشتیدار کون ہے؟ اپنائیت کس سے ہے؟ عشق کے مریض کو سمجھنا آسان کام نہیں ہے دل کی بیماری کا علاج رہبرے کامل ہی کر سکتا ہے . باندھی کھل کے بول رہی تھی اور طبیب کان کھول کر اس کی باتیں سن رہا تھا اور نبض دیکھ رہا تھا اور یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ کس نام پر باندھی کی نبض تیز ہو رہی ہے! باندی نے اپنے شہروں کے نام گنوائے اور طبیب نے پوچھا کہ اپنے شہر کو چھوڑنے کے بعد زیادہ کون سے شہر میں رہی ہو؟ بندی شہروں کے نام لیتی گئی پر اس کے چہرے کا رنگ اور نبض نہیں بدلے۔ طبیب نے جب سمرقند کا حال پوچھا اچھا طب باندی نے ٹھنڈی سانس لی آنکھوں میں سے آنسو بہنے لگے مجھے اور کہنے لگی کہ سمرقند میں مجھے ایک تاجر نے خریدا تھا۔ اس نے چھ مہینے تک مجھے اپنے پاس رکھا اور پھر بیچ دیا۔ جب اس نے ایسا کہا تب طبیب نبض اور چہرے کے رنگ سے فورا سمجھ گیا کہ باندھی اس سُنار کے عشق میں گرفتار ہے۔ طبیب بیماری کا بنیاد سمجھ کیا تھا اور کہا کہ تم بیماری سے چھٹکارا حاصل کرلو گی ۔ مگر یہ راز ہرگز کسی سے بھی نہیں کہنا۔ بادشاہ سے بھی نہیں کہنا۔
طبیب نے باندھی سے کہا جس طرح برسات باغ کو سرسبز و شاداب بناتی ہے اسی طرح میں بھی تمہیں سرسبز بنادوں گا۔ مگر یہ راز نہیں کھولنا کیونکہ راز ظاہر ہونے پر مخالفوں کو مخالفت کا موقع مل جاتا ہے، اور کامیابی حاصل کرنا مشکل ہوجاتی ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے اپنے راز کو چھپایا وہ جلد اپنی منزل کو پہنچے گا۔ زمین میں بیچ چھپا ہوا ہوتا ہے، تبھی سرسبز اور شاداب ہو کر ابھرتا ہے ۔ راز کا چھپا رہنا ہی مفید ہے ۔ طبیعت کے وعدوں سے بیمار مطمئن ہوا۔ جھوٹے وعدے کرنے والا سرد دل اور کچے کام والا ہوتا ہے۔ وعدے کو دل اور جان سے پورا کرنا ضروری ہے کہ تم قیامت کے دن اس کا فیض دیکھو۔
طبیب کا باندہی کی بیماری کو پہچاننا اور بادشاہ پر ظاہر کرنا۔
آں حکیم مہربان چوں راز یافت
صورِت رنج کنیزک باز یافت
اُس مہربان طبیب نے جب راز معلوم کرلیا اور باندھی کی بیماری پہچان لی۔
طبیب وہاں سے اٹھا اور بادشاہ کی طرف جانے کا ارادہ کیا مگر باندھی کے عشق کا پور قصہ نہیں سنایا کہ بادشاہ کی غیرت جوش میں نا آجائے۔ بادشاہ نے پوچھا کہ اب کیا تدبیر ہے؟ طبیب نے کہا کہ اس مرد کو علاج کے لیے بلانا پڑے گا۔ کسی قاصد کو بھیجو اور کہو کہ تمہیں بادشاہ نے انعام کے لئے بلایا ہے انعام کی لالچ میں سُنار چلا آئےگا ۔ یوں تمہاری محبوبہ خوش ہو جائے گی۔
سُنار کو ڈھونڈ نکال کر کر لے آنے کے لیے بادشا
1 thought on “The king fell in love with a slave”