
masjid e nabvi medina
نبئ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ظهور پرنور :-
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے بارے میں شیعہ امامیہ علماء کے یہاں ۱۷ ربیع الاول مشہور تاریخ ہے اور اکثر کا اس پر اجماع ہے-
اھلسنت کے اکثر علماء نے ۱۲ ربیع الاول تاریخ بیان کی ہے اور شیخ کلینی (رح) اور کچھ بزرگ شیعہ عالموں نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے- علامہ شیخ نوری طاب ثراہ اس کے بارے میں “میزان السماء در تعبین مولد خاتم الانبیاء” کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے (تحقیق کرنے والے اس کی طرف رجوع کریں)-
یہ بھی مشہور ہے کہ آپ کی ولادت اس دن، طلوع آفتاب کے وقت ہوئی جس سال “اصحاب فیل نے ھاتھیوں کے ساتھ کعبہ پر حملہ کیا اور ان کے اوپر ابابیل کے ذریعی پتھروں کا عذاب ںازل ہوا”- مکہ شریف میں آپ (ص ) کا اپنے گھر میں ظهور ہوا – آپ (ص) نے وہ گھر حضرت عقیل ابن ابیطالب کو بخش دیا تھا، حضرت عقیل کی اولاد نے وہ گھر حجاج کے بھائی محمد بن یوسف کو بیچ دیا- اس نے یہ گھر اپنے گھر کے ساتھ ملحق کرلیا- جب ھارون عباسی کا زمانا آیا تو ھارون کی ماں خیزران ںے اس گھر کو الگ کرکے مسجد بنا دیا-
۶۵۹ ھ میں والئ یمن ملک مظفر اس مسجد کو دوبارہ بنانے کی کوشش کی – آج بھی یہ مسجد اسی حالت میں زیارت کے لیے موجود ہے-
امام جعفر صادق علیہ صلواۃ و السلام سے روایت ہے کہ شروع میں شیطان کو ساتوں آسمانوں پر رسائی حاصل تھی اور و ہاں کی خبریں کان لگا کر سنتا تھا جب حضرت عیسی علیہ السلام پیدا ہوئے تو اس کو تین آسمانوں سے روکا گیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت ہوئی تو اسے سبھی سے روک لیا گیا اور اس کو “شہاب” کے تیروں کے ذریعے بھگایا جاتا تھا اس لیے قریش یہ کہنے لگے کہ دنیا کے خاتمے اور قیامت کا وقت آگیا ہے جو وہ “اہل کتاب” سے سنتے آرہے تھے-
It is narrated from Imam Ja’far Sadiq (as) that in the beginning Satan had access to the seven heavens and he used to listen to the news of yes when he was born. When Allah (swt) was born, he was restrained from all and he was chased away by the arrows of “Shahab” so the Quraysh began to say that the time has come for the end of the world and the Hour which he called the People of the Book. “
عمرو بن امیہ جو اس وقت کا عقل مند آدمی سمجھا جاتا تھا وہ بولا “جب دیکھو کہ وہ مشہور تارے جن کے ذریعے سردی و گرمی کے موسم کا پتا چلتا ہے اور ھدایت ملتی ہے اگر ان میں سے کوئی ٹوٹ جائے تو جان لینا کہ وہ وقت آگیا ہے جب تمام مخلوق فنا ہوجائے گی اور جب یہ دیکھو کہ سارے ستارے اپنی جگہ قائم ہیں اور نئے ستارے ظاھر ہوئے ہیں تو سمجھنا کوئی عجیب و غریب واقعہ ظاھر ہوا ہے”-
جس صبح آپ (ص) کی ولادت ہوئی اس دن دنیا میں جہاں بھی کوئی بت تھا وہ منھ کے بل زمین پر جا گرا۔۔۔۔
ایران کے بادشاہ “کسرا” کا محل جھولنے لگا اور اس کے چودہ (۱۴) مینار گر پڑے۔۔۔
ساوہ نامی دریا جس کی پوجا ہوتی تھی سوکھ گیا۔۔۔
سماوہ کی وادی جہاں صدیوں سے قحط اور خشک سالی تھی، وہاں پانی جاری ہوگیا۔۔۔
فارس کے مندر میں ایک ھزار سال سے جلتی ہوئی آگ بجھ گئی۔۔
مجوسیوں کے عالموں میں سے سب سے عقلمند عالم نے خواب دیکھا کہ کچھ زور آور اونٹ عربی گھوڑوں کو گھسیٹتے دجلہ دریا پار کروا کر ان کے شہر کی طرف لا رہے ہیں۔۔
دجلہ کا بند ٹوٹ گیا اور پانی کسرا کے محلات میں بہنے لگا۔۔۔
اس رات حجاز سے ایک نور ظاھر ہوا جو سارے جہان میں پھیل گیا۔۔۔
اس دن صبح ھر بادشاہ کا تخت الٹ پڑا اور ہر بادشاہ گونگا ہو گیا۔۔۔
نجومیوں کا علم اور جادوگروں کا جادو باطل ہوگیا۔۔۔
ھر مخفی عالم اور اس کے ہمزاد جو اس کو خبریں پہچاتے تھے، ان کا رابطہ ٹوٹ گیا۔۔۔۔
قریش سارے عرب میں سرخرو ہوگئے اور لوگ ان کو “آل اللہ” کہا جانے لگا، کیوں کہ آپ خدا کے گھر کے باسی تھے۔۔۔۔
بی بی آمنہ سلام اللہ علیہا نے کہا خدا کی قسم جب میرا بیٹا اس زمین پر آیا تو آپ (ص) ںے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے اور چہرا آسمان کی طرف کیا اور پورے جہان کو دیکھنے لگنے اور ان میں سے ایسا نور ظاھر ھوا جس نے ہر شے کو روشن کردیا اور میں نے اس نور میں شام کے محلات دیکھے اور اس نور سے ایک آواز سنی، کہ کہنے والا پکار رہا تھا کہ آپ نے کائنات کے سب سے بہترین شخص کو جنم دیا ہے آپ ان کا نام “محمد” (ص) رکھنا۔۔
Bibi Amna (peace be upon her) said: By Allah, when my son came to this earth, he (SAW) placed both his hands on the earth and his face towards the sky, and he began to look at the whole world, Who illuminated everything and I saw the palaces of Syria in this light and heard a voice from this light, saying that you have given birth to the best man in the universe, his name is Muhammad (pbuh) To keep.
جب آپ (ص) کو حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کے پاس لایا گیا اور آپ (ص) کو گود میں لیا تو حضرت عبدالمطلب علیہ السلام نے کہا۔۔
When he (SAW) was brought to Hazrat Abdul Muttalib (AS) and he (SAW) was embraced, Hazrat Abdul Muttalib (AS) said …
“تعریف ہے اس خدا کے جس نے مجھے یہ خوشبودار فرزند عطا کیا جو جھولے میں ہی سارے بچوں کا سردار ہے”
“Praise be to God who has given me this fragrant child who is the leader of all children in the cradle.”
پھر آپ (ص) کو کعبہ شریف کے رکنوں سے مس کیا اور آپ (ص) کی فضیلت میں کچھ اشعار کہے-
جناب امیر المؤ منین علیہ صلواۃ و السلام سے روایت ہے جب آپ (ص) پیدا ہوئے تو کعبے میں سارے بت منہ کے بل گر گئے اور جب غروب آفتاب ہوا تو آواز آئی:
“حق آیا اور باطل مٹ گیا بیشک باطل مٹنے والا ہے”
رات سارا جہان روشن ہوگیا، ھر ایک پتھر اور درخت مسکرا اٹھا،
The whole world was illuminated at night, every stone and tree smiled and every creature in the earth and sky glorified Allah.
زمین اور آسمان کی ہر مخلوق نے اللہ کی تسبیح کی،
شیخ احمد بن ابی طالب طبرسئ اپنی کتاب “احتجاج” میں امام موسی کاظم علیہ صلواۃ و السلام سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ آلہ و سلم جب اپنی مادر کے شکم مبارک سے زمین پر آئے تو اپنا بایاں ہاتھ زمین پر ٹکایا اور دائیاں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر اپنے پاک لبوں سے اللہ کی توحید بیان کرنے لگے تو ان کے چہرہ مبارک سے ایسا نور جاری ہوا کہ جس کی روشنی سے مکہ کے لوگوں ںے شام کے محلات دیکھے اور پھر یمن کے سرخ محلات اور اس کے آس پاس کے علاقے اور اصطخر فارس کے سفید محلات اور اس کے ارد گرد کے علاقے کو دیکھا-
آپ (ص) کی ولادت کے وقت سارا جہان اس قدر روشن ہوگیا کہ جن، انسان اور شیطان ڈر گئے اور کہنے لگے کہ زمین پر کوئی عجیب وغریب واقعہ رونما ہوا ہے، ملائکہ کو دیکھا کہ ان کے ٹولے زمین پر آجا رہے ہیں اور اللہ کی حمد و ثناء کر رہے ہیں، تارے فضا میں حرکت کی وجہ سے ٹوٹ رہے تھے، یہ سب ابلیس ملعون نے دیکھا تو آسمان کی طرف دوڑا تو ملائکہ اسے شہاب ثاقب مار مار کر بھگاتے رہے.
(منتہی الآمال صفحہ ۱۴،۱۵،۱۶)
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں کہ خداوند عالم نے امتوں کو مختلف دینوں میں (اورفرقوں میں) بٹے ہوئے آتش پرستی کرتے ہوئے، بت پرستی کرتے ہوئے (وجود خدا کی دلیلوں کو رد کرتے) خدا کا منکر دیکھا تو میرے والد محمد (ص) کے ذریعہ تاریکیوں کو دور کیا دلوں کے (پردہ ہائے) تاریکی کو چاک کردیا آنکھوں سے ان کے اندھے پن کوختم کردیا۔ لوگوں کے درمیان میرے باپ محمد صلواۃ الله والسلام عليه ہدایت کے لئے کھڑے ہوئے اوران کو گمراہی سے نجات دی اور اندھے پن سے روشنی کی طرف رہنمائی کی، مضبوط دین کی طرف ہدایت فرمائی اور صراط مستقیم کی طرف دعوت دی۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے والد محمد صلواۃ الله والسلام عليه خدا کے بندہ اور رسول ہیں، اور خداوند عالم نے ان کو مبعوث بہ رسالت کرنے سے پہلے منتخب کیا اور اختیار کیا اور ان کو مجتبی بنانے سے پہلے ان کا نام رکھا اور(رسول بنا کر) بھیجنے سے پہلے ان کو مصطفی بنایا جب کہ تمام مخلوق پردہ ہائے غیب کے نیچے، اور بیم و ہراس کے نہاں خانوں میں چھپی ہوئی تھی اور عدم کی آخری حد سے مقرون تھی، اس لئے کہ خدا امور کے انجام سے، زمانہ کے حوادث و جریان کے امور سے مطلع تھا اور محمد (ص) کو اپنے امر کی تکمیل کے لئے مبعوث فرمایا تا کہ اس کے امر کا اجرا کریں اور اس کے حتمی مقدرات کو جامہ عمل پہنائیں۔
(اعیان الشیعہ ،طبع جدید،ج ۱ ،ص ۳۱۶)
امیرالمـومنیـن علی عليه السلام، پیغمبر اکرم صلواۃ الله والسلام عليه کے آباء و اجداد کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرماتے ہیں
“خدا وند متعال نے انوارِ انبیاء عليهم السلام کو بہترین اور افضل ترین مقامات میں بطور امانت رکھا جو ان کے آباء کرام کے طاہر اصلاب تھے اور پھر خدا نے انبیاء عليهم السلام کو منزہ اور طاہر مقامات یعنی پاک و پاکیزہ ارحام میں قرار دیا۔ اور پھر ان کو پاک و پاکیزہ اصلاب سے طاہر ارحام میں منتقل فرمایا۔ ان ابنیاء عظام کے آباء کرام میں سے جب بھی کوئی سلف صالح دنیا سے رخصت ہوتا تو دین کے قوّام و ترویج کے لئے ان میں سے دوسرا خلف صالح یہ عہدہ اپنے ذمہ لے لیتا, یہاں تک کہ پروردگار عالم کی یہ کرامت جو منصب عظمٰی (نبوت) ہے پیغمبر اسلام خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچی۔ پس آنحضرت صلى الله عليه واله وسلم کو افضل ترین اور بہترین معدن سے جو طیّب و طاہر طینت نبوت ہے، دنیا میں بھیجا جو عزیز ترین اصل ہے اور وہ پاک و پاکیزہ عنصر ہے جو عہدہ دار منصب عظمٰی (رسالت) ہے۔ اس شجرہ طیّبہ نبوت سے آپ کی ذات اقدس کو ہویدا و آشکار فرمایا۔ اسی شجرہ طیبہ نبوت اور سعید ترین و امین ترین درخت سے اپنے انبیاء عظّام کو منتخب فرمایا، اس شجرہ طیبہ سے خلق کی گئی آپ صلواۃ الله والسلام عليه کی عترت بہترین عترت، آپ صلواۃ الله والسلام عليه کی ذریت بہترین ذریت اور آپ صلواۃ الله والسلام عليه کا خاندان بہترین خاندان ہے۔”
(نہج البلاغہ خطبہ ٩٤ و ١٠٥)
(مضمون: سید ابرار شاہ)
(تصحیح و تدوین: ایڈمن، بلینڈ آف ہسٹری)