January 18, 2025
Deception

شیطان کا حضرت معاویہ (رضی الله عنهُ) کو نماز کے لیئے جگانا

در خبر آمد کہ خالِ مومناں
بود اندر قصرِ خود خُفتہ شباں

“قصے میں مذکور ہے کہ مسلمانوں کا ماموں رات کو اپنے محل میں سو رہا تھا.”

حضرت امیر معاویہ (رضی الله عنهُ)، حضرت ام حبیبہ امهات المومنین زوجہ النبیﷺ کے کے بھائی ہیں. اس اعتبار سے وہ مسلمانوں کے ماموں ہیں. حضرت امیر معاویہ (رضی الله عنهُ) لوگوں کے ساتھ ملاقتیں کرنے کہ بعد تھک کر محل کا دروازا بند کر کہ سؤ رہے تھے. اچانک ایک شخص نے اُن کو اٹھایا. جب آنکھ کھولی تو وہ شخص چُھپ گیا. دروازا بند تھا اور اندر آنے کا راستہ کھلا نہیں تھا. کون ہے جس نے نیند سے اٹھایا اور بنا اجازت محل میں آیا؟ ڈھونڈنے لگے کہ چھپے ہوئے کی خبر ملے. اتنے میں ایک شخص کو دروازے کے پیچھے سے چہرا چھپاتے ہوئے دیکھا. پوچھاکہ! تم کون ہو؟ تمہارا نام کیا ہے؟ اس پر اُس نے جواب دیا کی میرا نام بدبخت شیطان ہے!

حضرت امیر معاویہ (رضی اللّٰه عنهُ) کو شیطان کا جواب دینا.

گفت بیدارم چرا کردی بجد
راست گوبامن مگو بر عکس و ضد

“وہ بولا: تم نے مجھے کوشش کر کہ کیوں اٹھایا؟ سچ بتا! مجھہ سے اُلٹی بات نہیں کرنا!”

شیطان نے بولا کہ عبادت کا وقت آخری ہوگیا ہے، مسجد کی طرف بھاگو! وقتی عبادت وقت ختم ہونے سے پہلے اور غیر وقتی عبادت مرنے سے پہلے اد کر. حضرت امیر معاویہ (رضی اللّٰه عنهُ) نے شیطان کو کہا کہ تم الله تعالیٰ کے اسمِ مضل کا مظهر ہو. تم سے سے خیر کی رہنمائی ممکن نہیں. انسان کسی کی نگهبانی ثواب کے لیئے کریگا یا مزدوری کے لیئے. چور کا ان دونوں چیزوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے. مطلب کہ تم جیسا ڈاکو مجھ پر ایسا مھربان کیوں بنا؟.

شیطان کا دوسری دفه حضرت امیر معاویہ (رضی اللّٰه عنهُ) کو جواب دینا.

گفت ما اول فرشتہ بودہ ایم
راہِ طاعت را بجاں پیمودہ ایم

“شیطان بولا کہ میں شروع میں ملائک تھا، میں نے فرمانبرداری کا راستہ دل و جان سے تہ کیا ہے.”
شیطان نے حضرت امیر معاویہ (رضی اللّٰه عنهُ) کو بولا کہ میں کسی زمانے میں معلم الملکوت تھا. ملائکا کو تعلیم دینا اور نیکی کی رہنمائی کرنا میرا کام تھا. وطن کی محبت پہلی محبت ہے. یہ کسی بہی حالت ختم نہیں ہوتی. چاہے انسان کسی اور شھر میں جا کر آباد ہو. عشقِ خداوندی کا شراب جنہوں نے پیا ہے ان کو پتا ہوگا. ہم نے نوازشیں دیکھیں ہیں. جب اُس کے اتنے قدر احسان ہیں تو ہمارے دل میں اُس کی محبت کیسے نہ ہوگی! اُس وقت بھی میں نکالا نہیں گیا تھا. گُٹھی میں پڑی وسعت نہیں بدلی. وہ ناراض ہے پر میں اُس کے کرم سے مایوس نہیں. حدیص شریف میں ہے کہ خدا نے فرمایا کہ “سبقت رحمتی علیٰ غضبی”. میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے.

الله تعالیٰ کی مھربانی سے یہ جہان وجود میں آیا. الله تعالی نےٰ اپنے دربار سے دور اس لیئے کیا کہ جیسے دربار کا قدر معالوم ہو جائے. *جب جدائی کی سزا ملتی ہو تب وصل کی قدر ہوتی ہے. دنیا کو پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کا اپنا کوئی بھی فائدا نہیں. ننگے سے کوئی چادر کیسے چھین سکتا ہے. مخلوق جب خود محتاج ہے تو اس میں سے اللَه تعالیٰ کو کون سا فائدہ ہوگا. اسی لیئے میں اس کی رحمت کا امیدوار ہوں. الله تعالیٰ اپنی ناراضگی میں کوئی ایسا سبب پیدا فرما دیتا ہے کہ جس سے بندے کو تکلیف پہنچتی ہے تو عام لوگ اس وجہ سے چلا اُٹھتے ہیں. میں مُسّبب یعنی اللہ تعالیٰ پر نظر رکھتا ہوں اور اسی کا قائل ہوں. مھربانی اللہ کی قدیم سفت ہے اور قهر بعد کی چیز ہے. میں قدیم صفت کو پیش نظر رکھتا ہوں اور مایوس نہیں ہوتا. حضرت آدم علیہ اسلام کو سجدا نہ کرنے کا سبب حسد تھا اور یہ عشق خداوندی پر مبنی تھا. میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے محبوب کا کوئی اور مقرب بنے. رقابت میں جو حسد پیدا ہوتا ہے وہ دوست کی دوستی پر مبنی ہے. کیونکہ حاسد رقیب یہ نہیں چاہتا کہ کوئی اور محبوب کا ہمنشیں بنے. دوستی اور عشق میں رقیب سے حسد لازمی چیز ہے. جبکہ تقدیر الاہی کی بساط پہ میرے لیئے فقط یہ ہی بازی تھی کہ میں حضرت آدم علیه اسلام کو سجدہ نہ کروں اور مردودِ بارگاہ بنوں تو میرے لیئے اس سے تجاوز کرنے کا کیا امکان تھا!؟ آدم علیه اسلام کو سجدہ نہ کرنے کی بازی میں نے کھیلی اور میں مصیبت میں پھنس گیا، جیسی کہ میں نے اُس (رب) کی زات سے بازی ہاری، اسی لیئے میں اس بازی ہارنے میں بھی لطف اندوز ہوتا ہوں.

حضرت معاویہ (رضی اللّٰه عنهُ) کی ابلیس لعین کو دوبارا جواب دینا

گفت امیر اورا کہ اینہاراست ست
لیک بخشِ تو ازینھار کاست ست

ترجمہ: “امیر معاویہ” نے کہا کہ یہ سب درست ہے مگر اس میں تمہارا حصہ نہیں.”

تم نے مجھ جیسے لاکھوں لوگوں کو گمراھ کیا ہے. شیطان آگ سے بنا ہے اور آگ کا کام جلانا ہے. تم پر خدا کی لعنت کی صورت یہ ہے کہ تمہیں جلانے والا اور چوروں کا سردار بنا دیا. شیطان نے حضرت آدم علیہ اسلام کو سجدہ نہ کرنے کہ معاملےمیں آمنے سامنے جواب دیا. قومِ عاد کی حدایت کے لیئے حضرت صالح علیہ اسلام کو بھیجا گیا تھا پر شیطان نے انہیں راہِ راست پر آنے نہ دیا. حضرت لوط علیہ اسلام حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا بھتیجا تھا، قوم کی ہدایت کے لیئے بھیجا گیا مگر شیطان نے گمراہ کیا جس کی وجہ سے ان پر پتھروں کا عذاب آیا. نمرود خدائی کا دعویدار ہوا تو خدا نے ایک مچھر اس کے دماغ میں گھسادیا. جس سے وہ ہلاک ہوا. بلم بن باعور مشھور شخص تھا. وہ بڑا عبادت گزار تھا پر حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی مخالفت کی وجہ سے تباہ اور برباد ہوا. برصیصا ایک مشھور عبادت گذار راہب تھا جس کو شیطان نے گمراہ کیا.

ابلیس کا تیسری مرتبہ حضرت معاویہ (رضی اللّٰه عنهُ) کو جواب دینا

گفت ابلیس کُشا ایں عقدہا
من محکم قلب را و نقد را

ترجمہ: شیطان نے کہا کہ ان گٹھلیوں کو سلجھاؤ، میں تو کَھَرے اور کھوٹے کے لیئے محض ایک کسوٹی ہوں.

مجھے الله تعالیٰ نے امتحان کا ذریعا بنایا ہے. کھوٹا سکا جب تپایا جاتا ہے تو کالا ہو جاتا ہے. شیطان کی تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان میں شر اور خیر کی صلاحیت میں نے پیدا نہیں کی، پر قدرت نے پیدا فرمائی. میں تو فقط اس کو ظاہر کرتا ہوں. اسی لیئے میں قصوروار نہیں!

شیطان کی یہ تقریر غلط ہے

بیشک خیر اور شر کا مادہ اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے. جو شخص جس طرح کی قوت اور طاقت کو کام میں لانے کا سبب بنتا ہے. وہ اسی طرح کی سزا و جزا کا مستحق بنتا ہے. انبیا انسان کی قوتِ خیر کو کام میں لاتے ہیں اسی لیئے جزا اور بدلے کے حقدار ہیں. شیطان انسان کی قوتِ شر کو کام میں لاتا ہے اسی لیئے لعنت کا حقدار ہے. اگر کوئی شخص بارود میں آگ لگائے اور کہے کہ اس میں تو خؤد جلنے کا مادہ ہے وہ شخص اپنی اس تقریر سے بری نہیں ہوسکتا.

شیطان کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کے میں باغبان ہوں باغبان (مالی) تو گیلی شاخ کی پرورش کرتا ہے پر اس نے تو بہت سے نیکوں کو برباد کیا ہے. اس نے، حضرت آدم علیہ اسلام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی. شیطان نے کہا کہ میں انسان کو برائی کی دعوت دےکر یہ معلوم کرتا ہوں کہ برا کون ہے اور بھلا کون ہے؟ اگر چہ کُتے اور ہِرنی کی جفتی کی جائے اور بچہ پیدا ہو، جس کا کُتے اور ہِرن ہونے میں شک ہوجائے تو اصلیت معلوم کرنے کی ترکیب یہ ہے کہ اُس کے آگے، کُتے کا کھانا جو کہ ہڈی ہے اور ہرن کا چارا جو کہ گھانس ہے، ڈال دیں اور پھر دیکھیں کہ جس کی طرف بڑھے، تو سمجھو اُسی کی جنس کا ہے. الله تعالیٰ کے قہر اور لُطف کے میل جول سے خیر اور شر پیدا ہوا. نیک اور بد لوگوں کی پہچان کے لیئے آپ بھی ان کے آگے ان کی خوراک ڈال کر دیکھیں! نفس کی خوراک شر ہے اور روح کی خوراک خیر ہے، جس کی طرف اس کی رغبت ہو وہ اُس جہان کا انسان ہوگا. تن پروری بے عقلی کی دلیل ہے، جو کہ گدہے کی مانند ہے. خیر اور شر حالانکہ دو مختلف چیزیں ہیں مگر دونوں کا کام اچھے اور برے میں امتیاز پیدا کرنا ہے. نبیوں کا بھی یہی کام ہے کہ وہ نیکوں کو بروں سے ممتاز اور جدا کریں. شیطان کا بھی یہ ہی کام ہے مگر دانوں میں فرق ہے.انبیا خیر کو پیش کر کہ اچھے اور برے میں امتیاز پیدا کرتے ہیں. جبکہ دین کا دشمن برائی کو پیش رکھ کر امتیاز پیدا کرتا ہے. اچھے اور برے پیدا کرنا اللَه تعالیٰ کا فعل ہے. شیطان نے کہا! میں تو فقط آئینے کی طرح اچھے اور برے کو اس کی شکل دکھاتا ہوں. اگر بد سورت آئینے پر غُصہ کرے تو اس میں اُس کی بے عقلی ہے. اگر یہ گُناہ ہے تو آئینے بنانے والے کا کام ہے کہ آئینہ کیوں بنایا. یہ حقیقت وہ واضع کرے. شیطان نے کہا کہ میں انسان کی برائی پر شاہد ہوں، جیل گنہگار کے لیئے ہے شاہد کے لیئے نہیں. باغبان کا کام یہ ہے کے اچھے درختوں کی پرورش کرے اور خراب درخت کو کاٹ کر پھینک دے. جس طرح سوکھے درخت کو مالی اگر کاٹتا ہے تو وہ اُس کی شکایت کرتا ہے. اسی طرح جب ناقابل اصلاح لوگوں کو میں تباہ کرتا ہوں تو وہ شکایت کرتے ہیں. سوکھا ہوا درخت باغبان کو کہتا ہے کہ میں سیدھا تھا آڑا ٹیڑھا نہیں تھا. تم نے مجھے کیوں کاٹا ہے!؟ باغبان کہتا ہے کہ آڑے ٹیڑھے درخت کی زندگے کی تو امید ہے مگر سوکھے ہوئے درخت کی زندگی ناممکن ہے. اسی لیئے اس کو کاٹا جائے گا. شیطان کہ رہا ہے کہ اسی طرح جن کہ اندر میں ایمان کا پانی نہیں ہے اور ان کے دل خُشک ہوگئے ہیں. ان سے مایوس ہو کر میں ان کو تباہ کرتا ہوں. جس کا اصل تخم ہی برا ہو وہ بیکار ہے. کڑوے اور کھارے پانی کی نہر کا اگر میٹھی شاخ سے پیوند لگایا جائے تو اس کی کڑواہٹ کم ہوجاتی ہے. اسی طرح بد عمل کی اصلاح ممکن ہے پر بدنسل کی اصلاح ناممکن ہے. شیطان حضرت امیر معاویہ (رضی الله عنه) کو جواب دے رہا ہے کہ جب تم یہ سمجھ گئے کہ میں اچھوں کے ساتھ اچھائی اور ناقابلِ اصلاح لوگوں کو تباہ کرتا ہوں تو سمجھ جاؤ کہ میں نے تمہیں دین کی خاطر جگایہ ہے.

حضرت معاویہ (رضی الله عنه) کا ابلیس کے ساتھ سختی سے پیش آنا.

گفت امیر اے رایزن حجت مگو
مر ترا رہ نیست در من رہ مجو

ترجمہ: امیر معاویہ (رضی الله عنه) نے فرمایا کہ! اے ڈاکو! حجت نہ کر، تمہارا مجھ میں کوئی راستہ نہیں، راستہ تلاش نہ کر.

تم ڈاکو ہو! میں مسافر تاجر ہوں. سفر کی حالت میں تاجر ہوشیار رہتا ہے. شیطان کا کام نیک اعمال کو تباہ کرنا ہے. اس کا معافضہ دے کر خریدنا نہیں. ڈاکو کا کام لوٹ مار کرنا ہے خریداری کرنا نہیں. اگر وہ اپنے آپ کو خریدار کہے تو ضرور اس میں کوئی مکاری ہوگی.

حضرت امیر معاویہ (رضی الله عنه) کا شیطان کے مِکر سے الله تعالیٰ کی مدد مانگنا اور آہ و زاری کرنا.

تاچہ دارد ایں حسود اندر کدو
اے خدا فریادرس مازیں عدو

ترجمہ: نجانے یہ حاسد کون سی چال چل رہا ہے. اے خدا! اس دشمن کے بارے میں ہماری فریاد سنو!

شیطان پہ محض دلیلوں سے، فضل خداوندی کے بغیر غلبہ ممکن نہیں ہے. حضرت آدم علیه اسلام کے بارے میں قرآن پاک میں ہے کہ “وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآء”(سورہ بقرہ -۳۱) الله تعالیٰ نے حضرت آدم علیه اسلام کو تمام اسماء کی تعلیم دی مگر شیطان نے ان سے دھوکا کیا. “رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ” (سورہ اعراف-۲۳) اے ہمارے رب! ہم نے ظلم کیا. حضرت آدم علیه اسلام نے توبہ کے وقت یہ اقرار کیا تھا.
شیطان بڑے بڑے بہادروں کی بہادری ایک پھونک میں ختم کر دیتا ہے. اے مخلوق کو تباہ کرنے والے شیطان. سچ بتا تونے مجھے کیوں جگایا؟ کیونکہ تمہاری یہ حیلہ بازی مجھ پر اثر نہیں کرسکتی. خبردار! مکاری کے بغیر مقصد بیان کر!

حضرت امیر معاویہ (رضی الله عنه) کے سامنے شیطان کا اپنی مکاری کے بارے میں پھر سے تقریر کرنا.

گفت ہر مردے کہ باشد بدگماں
نشنود او راست را باصفا نشاں

ترجمہ: “کہا کہ جو شخص بد گمان ہو وہ سینکڑوں نشانیوں والی سچی بات بھی نہیں سنے گا.”

شکی انسان کو جتنا سمجھاؤ، اُس کے شکوں میں اضافہ ہوتا جائے گا. ایسا آدمی غلط دلیلوں کا استعمال کرتا ہے. جیسے کوئی چور کسی غازی کی تلوار چوری کر کہ ارادہ رکھے کہ اس سے غلط کام کروں گا. شیطان نے کہا کہ آپ کا مجھے برا سمجھنا آپ کے نفس کا دھوکا ہے اور آپ نفس کی قید میں گرفتار کیئے ہوئے ہیں. اس سے رہائی اور آزادی کی دعا مانگو.

شیطان حشر میں بھی یہ ہی کہے گا “فَلَا تَلُوۡمُوۡنِیۡ وَ لُوۡمُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ” پھر مجھ پر ملامت نہ کرو اپنے نفس پر ملامت کرو” (سورہ الابراہیم -۲۲)
*مولانا رومی نصیحت کرتے فرماتے ہیں کہ انسان شیطان سے تو بچتا ہے لیکن خود اس کا نفس شیطان سے زیادہ شریر ہے. اس سے بے توجه رہتا ہے. برائی تو خود کرتا ہے، لعنت شیطان پر کرتا ہے. انسان کا نفس لذتوں کے پیچھے بھاگتا ہے اور انجام کی حلاکت سے غافل ہے. نفس کی خواہش انسان کو اندھا بنا دیتی ہے. نفس سے لڑو اوروں سے نہیں! شیطان کہتا ہے مجھکو برائی سے نفرت ہے تھوڑی برائی مجھسے ضرور ہوئی، جس سے میں شرمندہ ہوں. کینہ اور حرص عناصرِ اربعہ کی پیداوار ہیں. میں ان چاروں عناصر سے نہیں بنا. میں اس خطا کی بخشش کا امیدوار ہوں. بھیڑیا خوامخواہ بدنام ہے، نقصان کرے یا نہ کرے. بھیڑیا بھوکا ہونے کی وجہ سے چلنے پر قادر نہیں ہے. تہمت لگانے والے کہتے ہیں کہ موٹا جانور کھا گیا ہے اسیلیئے چل نہیں سکتا. بدھضمی ہوئی ہے.

حضرت امیر معاویہ (رضی الله عنه) کا شیطان سے مقصد کی حقیقت کو دوبارہ معلوم کرنا:

گفت غیر راستی نرہاندت
داد سوئے راستی می خواندت

ترجمہ:- “حضرت امیر معاویہ (رضی الله عنه) نے فرمایہ: تمہیں سچ کہ سوا کوئی نہیں چھڑائے گا. انصاف تمہیں سچائی کی دعوت دے رہا ہے.”

انصاف کی تقاضا یہ ہے کہ تو سچ بتا. شیطان نے حضرت امیر معاویہ (رضی الله عنه) کو کہا اگر میں سچ کہونگا تو آپ کو کیسے پتا چلے گا کہ میں سچ کہہ رہا ہوں. جبکہ آپ شک میں مبتلا ہیں. حضرت امیر معاویہ (رضی الله عنه) نے فرمایا کہ سچ اور جھوٹ کی نشانیاں حضور پاک ﷺ نے ہمیں بتا دیں ہیں. جھوٹی بات سن کر مومن کا دل مطمئین نہیں ہوتا اور مزید دل میں خلجان پیدا ہوتا ہے. سچی بات سن کر مومن کا دل مطمئین ہوجاتا ہے. مومن کا دل جھوٹی بات پر مطمئین نہیں ہوتا. جس طرح دیا پانی سے روشن نہیں ہوتا. جس طرح کوئی پرندہ دانے کی طرف بڑھتا ہے اسی طرح مومن کا دل سچائی کی طرف بڑھتا ہے، پر یہ نشانی مومن کے دل کے لیئے ہے. ہاں اگر کسی کا دل گناہوں کی وجہ سے بیمار ہو تو یہ نشانی اس کے لیئے نہیں.
جب دل بیماریوں سے آزاد ہو تو تب اس کی کیفیت ایسے ہوتی ہے جیسے حضرت آدم علیه اسلام میں گیھو کھانے سے حرص پیدا ہوگیا تھا، اس لیئے وہ شیطان کے جھوٹ کو نہیں پہچان سکے اور دھوکا کھا گئے. جیسے کہ عام لوگ حرص و ہوس میں مبتلا ہیں تو شیطان کی جھوٹی باتوں کو نہیں پہچانتے اور دھوکا کھا جاتے ہیں. امیر معاویہ رضی اللَه عنه نے فرمایا میں نے ھوا اور ہوس کو چھوڑ دیا ہے اور نفسانی خواھش کی غذا کو ترک کردیا ہے. اسی لیئے میرے دل. یں ایسی روشنی پیدا ہوگئی ہے کہ جھوٹ اور سچ میں فرق کرسکتاہوں. میں جان لونگا کہ تم سچ بول رہے ہو یا جھوٹ.

حضرت امیر معاویہ رضی الله عنهُ کا شیطان سے اقرار کروانا کہ اس نے کیوں جگایا.

اے ســگ ملعوں جواب من بگو
راست گو و در دروغ رہ مجو

ترجمہ: – اے ملعون کُتے! مجھے جواب دو! سچ بتا اور جھوٹ کا راستہ تلاش نہ کر.

تم نے مجھے کیوں جگایا؟ شیطان کا کام ہے کہ وہ خواب غفلت میں لوگوں کو مبتلا رکھے پر تم نے مجھے غفلت کی نیند سے اٹھایا. تم خش خاش کی طرح مجسم نیند ہو. شراب کی طرح عقل زائل کرتے ہو. میں ہر آدمی کو پہچان لیتا ہوں اور اس سے اس کام کی امید رکھتا ہوں جو اس کی فطرت میں داخل ہے. جیسے سرکے کی طبیعت میں کھٹاس ہے اس سے مٹھاس کی توقع کرنا غلط ہے. بُت سے یہ امید رکھنا کی وہ خدا ہو یا خدا کی کوئی نشانی، خواجہ سرا سے بھادری کی امید رکھنا تو یہ سب بھی غلط ہے. چور سے چوکیداری کی توقع غلط ہے. شیطان کی طبیعت میں خیر نہیں. اس لیئے اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ خیر کے لیئے جگائے گا غلط ہے.

شیطان کا امیر معاویہ رضی الله عنه سے سچ اُگلنا.

گفت بسیار آں بلیس از مکر و عذر
میر ازو نشنید کرد استیز و مکر

ترجمہ: – “شیطان نے مکر و عذر کی بہت سی باتیں کیں مگر امیرالمومنین نے نہیں سنیں، جھگڑا اور انکار کیا.

شیطان نے عاجزی سے کہا میں نے آپ کو اس کیئے جگایا کہ نماز باجماعت میں شریک ہو جائیں. پیغمبرﷺ کی سنت ادا کریں، اگر آپ سے یہ نماز چلی جاتی تو یہ دنیا آپ کے لیئے بے رونق بن جاتی. حضرت امیر معاویہ ر.ع کو نماز با جماعت کا بہت ذوق ہوتا تھا. شیطان نے مجبور ہوکر ان کو نماز کے لیئے جگانے کا مقصد بتایا. کیونکہ جماعت فوت ہونے پر امیر معاویہ رضی الله عنه کو صدمہ ہوتا اور وہ اس پر روتے اور بہت ثواب کے حقدار بن جاتے. شیطان نے ثواب سے محروم کرنے کے لیئے جگایا تھا.

نماز باجماعت کے فوت ہونے پر افسوس کی فضیلت.

اس قصے کا خلاصہ یہ ہے کہ عبادت کے فوت ہونے پر ایک عابد کو جو افسوس ہوتا ہے اس کی بہت قدروقیمت ہے.

آں یکے می رفت در مسجد دروں
مردم از مسجد ہمی آمد بروں

ترجمہ :- ایک شخص مسجد میں جا رہا تھا، لوگ مسجد سے نکل رہے تھے.

لوگوں سے پوچھا کہ جلدی مسجد سے باہر کیوں نکل رہے ہیں. جماعت کا کیا ہوا؟ نماز پڑھ کر نکلنے والوں میں سی ایک شخص نے اس سے کہا کہ حضورﷺ جماعت ختم کر کہ دعا سے بھی فارغ ہوگئے ہیں. اس پر جماعت سے محروم ننازی نے ایسی آہ بھری جس میں درد تھا اور اس میں سے دل کے خون کی بو آ رہی تھی. جو شخص نماز باجماعت پڑھ چکا تھا. وہ بولا: میں اپنی نماز کا ثواب تمہیں دیتا ہوں تم اپنی اس آہ کہ ثمرات مجھے عطا کر! آہ بھرنے والا شخص قرب الاہی میں پہلے سے بھی بڑے مرتبے پر پہنچ گیا. خواب میں اس کو ایک غیبی آواز آیا کہ تم نے آبِ حیات اور شفا کو خریدا ہے. تمہاری آہ کی وجہ سے سارے نمازیوں کی نماز قبول ہوگئی.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Please enter CoinGecko Free Api Key to get this plugin works.
Verified by MonsterInsights