
بزرگ رومی رح علیه نے فرمایا تھا کہ _اللَه تعالیٰ کی حقیقی تعریف امکان سے باہر ہے، پھر بھی جس طرح ہوسکے تعریف کرنی چاہیئے. اسی مناسبت سے یہ قصہ نقل کیا ہے کہ چرواہے کی ناشائستہ تعریف جیساکہ خلوصِ نیت سے تھی اسی لیئے اللَه تعالیٰ نے قبول کی.

دید ٰموسیٰ ع یک شُبانے را برہ
کوہمی گفت اے کریم و اے آلہ
“حضرت موسیٰ علیه اسلام نے ایک چرواہے کو راستے میں دیکھا جو کہہ رہا تھا کہ: اے کریم، ای خدا تم کہاں ہو
میں تمہارا نوکر بنوں، تمہارا جوتا سیؤں، تمہارے سر میں کنگی کروں، تمہاری خدمت کروں، تمہارے کپڑے سیؤں، تمہارے کپڑے دھؤں، جوئیں ماروں، تمہیں دودھ پلاؤں، تم بیمار ہو تو تمہارا غمخوار بنوں، تمہاری مالش کروں، تمہارا بستر جہاڑکر صاف کروں کہ تم سو سکو، میرا گھر بار اور میری جان تم پر قربان. اگرچہ مجھے تمہارے گھر کا پتا معلوم ہو تو صبح شام تمہارے لیئے دودھ، گھی، پنیر اور دھی لاؤں اور تم کھاؤ. میری ساری بکریاں آپ پر قُربان ہوں۔۔۔۔
حضرت موسیٰ علیہ اسلام نے اسے کہا ایک شخص کا گناہ اوروں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے. اگرچہ عذاب ابھی نہیں آیا ہے تو اُس کے آثار آگئے ہیں جس کی وجہ سے دل سیاہ ہو گیا ہے.
بےوقوف دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہے. غذا کی اس کو زرورت ہے جس کا جسم ہو اور اُس کی نشونمہ ہوتی ہو. اللَه تعالیٰ کو نہ ہی پیروں کی ضرورت ہے، ہاں، نہ ہی جوتوں کی ضرورت ہے. ان ساری باتوں سے الله تعالیٰ پاک ہے.
کچھ خدا کے نیک بندے ایسے ہوتے ہیں جو اپنی شخصیت اور خواھشات کو فنا کرکے حضرتِ حق کی مرضی کے مطابق خؤد کو ڈھال لیتے ہیں۔۔
ایسے لوگوں کے لیئے حدیث پاک میں ہے کہ *اللَه تعلیٰ قیامت میں بنی آدم کو خطاب کرتے ہوئے فرمائینگے “اِنی مرضتُ لم تعدنی” میں بیمار ہوا تھا! تم مزاج پُرسی پر آئے نہیں؟ اس سے مراد یہ ہے کہ میرا یہ خاص بندہ جب بیمار ہوا تھا تب تم نے اُس کی مزاج پرسی کیوں نہیں کی؟