بانسری کی درد سے بھری ہوئی پکار
A cry filled with the pain of the flute
بانسری سے سنو کہ وہ کیا بیان کر رہی ہے اور جدائی کی کونسی صورت اور شکایت کر رہی تھی۔
کہہ رہی ہے کہ جب سے مجھے بانس کے درخت سے کاٹا گیا ہے میری درد کی پکار سے مرد ہو یا عورت ہو سب رو رہے ہیں۔ مجھے وہ دل چاہیے چاہیے جو جدائی سے ٹکڑے ٹکڑے ہوا ہو ۔ پھر میں عشق کے درد کی تفصیل سناؤ جو اپنے وصل کا زمانہ ڈھونڈتا ہے۔ میں ہر طرح کہ مجموعے اور جماعت میں روئی۔ اچھے لوگوں کے ساتھ بھی اور برے لوگوں کے ساتھ بھی اچھے لوگ وہ ہیں جنہوں نے اپنی حالت کو سُدھارا اور برے لوگ وہ جو دنیا سے لو لگائیں۔ ہر شخص اپنے خیال کے مطابق میرا ساتھی بنا مگر کسی نے بھی میرے اندر کے رازوں کو نہیں ڈھونڈا، وہ جو میری آواز سن کے میرے اندر چھپے ہوئے غم کو سمجھ سکتا، میرا راز میری پکار سے دور نہیں ہے،مگر اس آنکھ اور کان کو وہ نور میسر ہی نہیں کہ ان باتوں کو سمجھ سکے دیکھ سکے یا سن سکے۔ کہ جیسے روح سے بدن اور بدن سے روح چھپی ہوئی نہیں ہے پر کسی کے لیے روح کو دیکھنے کا دستور نہیں ۔ بدن روح کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔بانسری کا یہ آواز آگ ہے ہوا نہیں، جس کے اندر میں یہ آگ نہیں وہ نیست و نابود ہو۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بے عشق انسان کا مر جانا بہتر ہے۔بانسری میں عشق کا سوز ہے اور شراب میں جوش ہے۔ بانسری اس کی ساتھی ہے جو اپنے یار سے جدا اور کٹا ہوا ہو۔ اس کے راگوں نے ہمارے دل کے پردے پھاڑ دیے ہیں۔ کیا کسی نے بانسری جیسا ساتھی اور عاشق دیکھا ہے؟ بانسری میں زہر بھی ہے اور تریاق بھی ہے، بانسری خطرناک رستے کی بات کر رہی ہے، مجنوں کے عشق کے قصے بیان کر رہی ہے۔ جیسے بانسری کی طرح ہم بھی دو منہ والے ہیں۔ بانسری کا ایک منہ بانسری بجانے والے کے منہ میں چھپا ہوا ہوتا ہے اور دوسرے منہ سے بانسری سے جو آواز نکلتا ہے وہ حقیقت میں بانسری بجانے والے کا ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارے سارے کام مشیت ازدی کی وجہ سے ہیں۔ بانسری کے ظاہری سوراخ میں سے جو پکار نکل رہی ہے وہ اصل میں اس سوراخ کی آواز ہے جو بانسری بجانے والے کے منہ کے اندر چھپا ہوا ہے۔ اس بانسُری کا آواز اس پھونک کی وجہ سے ہے۔ روح کا شور شرابا اس کی تنبیہ کے لئے ہے۔ اس ہوش کا راز دان بے ہوش کے علاوہ کوئی نہیں۔ زبان کا خریدار کاَنّ جیسا نہیں ہے۔ بانسری کی فریاد کا اگر کوئی نتیجہ نہ ہوتا تو بات دوسری دنیا کو عشق کی مٹھاس سے نہ بھرتی۔ فراق کے غم کا زمانہ بیکار گزر رہا ہے اور سوزش کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ محبوب اگر باقی ہے تو فراق کے دنوں کی بربادی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ جیسے مچھلی پانی سے پیٹ نہیں بھرا کرتی اسی طرح عاشق عشق کے دریا سےکبھی پیٹ نہیں بھرتا۔ کامل عشق کے احوال ناقص نہیں سمجھ سکتا ۔ کمالِ عشق کی باتیں عام لوگوں کو بتانا بیکار ہے۔ شراب میں وہ جوش کہاں جو عشقِ صادق میں ہے۔ آسمان کا سیر اور گردش کرنا مشہور ہے پر عاشق صادق کا سیر اس سے کتنی درجہ زیادہ ہے۔ اگر عاشق اپنی منزلوں کی اور سیر کی باتوں کو عام لوگوں کو بتائیں تو وہ اس کو برداشت نہیں کرسکتے۔ عشق میں کمال کا راستہ یہ ہے کہ انسان اللہ کے غیر کی قید و بندش سے آزاد ہو جائے ۔ دنیا کی حرص اور ہوس کو ظاہر کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ اگر تم دریا کو ایک پیالے میں بھی بند کر دو پھر بھی حریصوں کی آنکھ کا پیالہ نہیں بھرے گا۔ جب سیپ بارش کے ایک قطرے کو اپنے منہ میں بند پے کر اپنے کھول کو جلدی سے بند کر دیتی ہے تب وہ قطرہ اس کے اندر موتی بن جاتا ہے۔ عشق کے جذبے سے ہی نفسانی رضائل دور ہوتے ہیں عشق کے جنون سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے یہی سارے نفسانی رذائل کا معالج ہے۔ تکبر اور مرتبے والی محبت کی بیماری اسی سے پہچانی جاتی ہے۔ یہی ان بیماریوں کا جالینوس اور افلاطون ہے (افلاطون حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے کا مشہور حکیم ہے جالینوس روم اور مصر کا مشہور حکیم ہے، جس کا مشہور شاگرد بقراط ہے).
اگر میں اپنے یار کے ہونٹوں سے ملا ہوا ہوتا تو میں کہتا جو بانسری کی طرح کہنے کی باتیں کرتا۔ اگر کوئی شخص دوست سے جدا ہو تو وہ بے سہارا ہوا بھلے وہ کتنی ہی سہارے رکھتا ہو۔ بلبل بہار کے موسم میں اپنی چُن بُن میں عشق کی داستان سناتی ہے۔ خزاں کا موسم فراق کا موسم ہے اور اس میں وہ خاموش ہو جاتی ہے۔
When the mercy of Allah Almighty is not with the servant, he is like a bird without wings. His love serves as a gallows for us, his warriors are taken to the street of his friend, man is intoxicated till the light of God is involved, love of God requires that it be manifested on every heart Rusty heart does not accept manifestation.
اللہ تعالی کی رحمت جب بندے کے شامل حال نہ ہو تو وہ ایک بغیر پروں کے پرندے کی طرح ہے۔ اُس کا عشق ہمارے لئے پھانسی کا کام کرتا ہے، اس کے وار دوست کی گلی تک لے کے جاتے ہیں، جب تک نور خداوندی شامل حال نہ ہو تب تک انسان مدہوش ہے عشق خداوندی کی تقاضہ ہے کہ ہر دل پر اس کی تجلی ہو مگر زنگ آلود دل تجلی کو قبول نہیں کرتا ۔
عشق چاہتا ہے کہ یہ بات ظاہر ہو، تمہارے آئینے میں عکس نہیں پڑتا تو نہ پڑے۔ تمہیں خبر ہے کہ تمہارے آئینے پر عکس کیوں نہیں پڑتا؟ اس لیے نہیں پڑتا کیونکہ وہ زنگ آلود ہو چکا ہے۔ صاف قلب پر رب کی تجلیوں کا ظہور ہوتا ہے ۔ جا آئینے کے چہرے کو زنگ سے صاف کر اس کے بعد نور حاصل کر، اس حقیقت کو دل کے کانوں سے سنو تا کہ تو اس مادی جسم سے باہر نکل سکے، انسان پہلے روح کی تربیت کرتا ہے اس کے بعد پھر وہ عشق کے راستے پر گامزن ہوتا
ہے۔
تالیف : مولانا جلال الدین رومی
اردو ٹرانسلیشن: محمد علی
سندھی کار: مولانامحمدرمضان مہری
JazzakAllah